صفحات

بدھ، 10 اپریل، 2013

Today's World

انتخابی امیدواروں سے کئے گئے تضحیک آمیز سوالات… آج کی دنیا…
پاکستان میں 11 مئی کے عام انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کی آخری تاریخ اللہ اللہ کرکے اختتام پذیر ہوئی اور انتخابی امیدواروں نے سکھ کا سانس لیا مگر کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران ریٹرننگ افسران کی جانب سے انتخابی امیدواروں سے ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں پوچھے گئے مضحکہ خیز سوالات اور میڈیا کوریج نے عوام کی نظر میں نہ صرف انتخابی عمل کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کیا بلکہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن بھی تنقید کا نشانہ بنا۔

آج کالم تحریر کرتے وقت مجھے ایک مشہور قصہ یاد آرہا ہے کہ جب حضرت بختیار کاکیؒ جہان فانی سے رخصت ہوئے تو ایک شخص نے آگے بڑھ کر باآواز بلند کہا کہ حضرتؒ کی وصیت تھی کہ اُن کی نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، نماز کی پابندی کرتا ہو، کسی برائی میں مبتلا نہ رہا ہو اور نہ ہی کسی عورت پر بری نظر ڈالی ہو“۔
اعلان کے کافی دیر بعد ہزاروں کے مجمع سے ایک شخص جس کا چہرہ رومال سے چھپا ہوا تھا آگے بڑھا اور حضرت بختیار کاکیؒ کے سر سے کفن ہٹاتے ہوئے بولا ”حضرت آپ تو رخصت ہوگئے مگر ہمیں شرمندہ کر گئے“۔
پاکستان میں انتخابی امیدوار بھی پچھلے دنوں کچھ اسی طرح کی صورتحال سے دوچار رہے کیونکہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کی آئین میں کی گئی ترمیم ان امیدواروں کی تضحیک و شرمندگی کا سبب بنی رہی۔
مجھے یقین ہے کہ یہ انتخابی امیدوار ضیاء الحق کی تصویر کے سامنے کھڑے اُن سے یہ شکایت ضرور کررہے ہوں گے کہ ”جنرل صاحب! آپ تو اس دنیا سے رخصت ہوگئے مگر ہمیں شرمندہ و رسوا کرگئے“۔

انتخابی امیدواروں کی شرمندگی کی وجہ آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کی آڑ میں اُن سے ریٹرننگ افسروں کی جانب سے پوچھے گئے وہ مضحکہ خیز سوالات تھے جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
کچھ ریٹرننگ افسران نے تو اپنی حدوں کو عبور کرتے ہوئے امیدواروں سے ان کی نجی زندگی، بیویوں کی تعداد اور ان کے ساتھ گزارے جانے والے وقت پر استفسار کیا جبکہ کچھ امیدواروں سے یہ بھی پوچھا گیا کہ وہ ہنی مون پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں؟ ریٹرننگ افسران کو اس امر میں بھی دلچسپی رہی کہ کیا امیدوار اپنی زندگی میں کبھی لڑکیوں کے کالج کے سامنے کھڑا ہوا یا کبھی اس نے غیر سنسرڈ فلم دیکھی یا نہیں؟ ایک ریٹرننگ افسر نے تو اپنی ”قابلیت“ کا مظاہرہ کرتے ہوئے امیدوار سے یہ تک پوچھ لیا کہ اگر ان کا بیٹا، بیوی اور ایک عظیم مذہبی عالم دریا میں ڈوب رہے ہوں اور ان میں سے کسی ایک کو بچانا مقصود ہو تو وہ ان میں سے کس کو بچائیں گے؟ “ اس کے علاوہ دین کے بارے میں سوالات میں کلمہ اور قرآنی آیتیں سنانے، نماز اور جنازہ کی ادائیگی کے طریقہ کار، سور کا گوشت کھانے اور صحرا میں اگر پیاس سے مررہے ہوں تو شراب پی لینے جیسے مختلف نوعیت کے دیگر مذہبی سوالات کرکے امیدواروں کو شرمندگی پر مجبور کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ انتخابی امیدوار ایک کم درجے کے مسلمان ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ ریٹرننگ افسران نے امیدواروں سے دعائے قنوت سنانے کی فرمائش کی تو کسی نے دوسرا اور تیسرا کلمہ سنانے کو کہا جبکہ کئی امیدواروں سے قومی ترانہ سنانے کو کہا گیا تو کسی سے فجر یا عشاء کی نماز کی رکعتوں کی تفصیل پوچھی گئی، کچھ امیدواروں سے یہ بھی پوچھا گیا کہ شادی شدہ مسلمانوں پر غسل کب لازم ہوتا ہے اور کیا اُن کا مناسب انداز میں ختنہ ہوا ہے؟
کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران انتخابی امیدواروں سے مضحکہ خیز سوالات کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوا جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا یہ بیان سامنے آیا کہ ”حکمرانی کیلئے اچھے کردار کے نمائندے منتخب ہوں“ ریٹرننگ افسران نے چیف جسٹس کے اس بیان کو صادق اور امین کے زمرے میں لیا اور پھر انہوں نے امیدواروں سے سوالات کا وہ سلسلہ شروع کردیا جس کا الیکشن، اس کی شفافیت اور امیدوار کے اچھا مسلمان ہونے سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا لیکن جب تک لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں ریٹرننگ افسروں کو مضحکہ خیز سوالات کرنے سے منع کرنے کی کوشش کی اور وضاحت کی کہ چیف جسٹس کے بیان کی روح کے اُلٹ عمل کیا گیا ہے اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور انتخابی امیدوار قوم کے سامنے تماشا بن چکے تھے تاہم اس بارے میں تاحال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دفتر سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خوف سے کسی امیدوار نے ریٹرننگ افسر سے یہ نہیں کہا کہ وہ غیر متعلقہ سوالات کیوں پوچھ رہے ہیں ماسوائے علی احمد کرد کے جنہوں نے کلمہ سنانے کی فرمائش پر ریٹرننگ افسر سے کہا کہ قانون کے مطابق وہ ان کی ذات کے بارے میں کچھ نہیں پوچھ سکتے۔
انتخابی امیدواروں کے ساتھ ریٹرننگ افسران کے مضحکہ خیز رویّے پر انسانی حقوق کمیشن نے اپنے بیان میں کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کو ڈرامہ قرار دیتے ہوئے اسے امیدواروں کو انتخابات سے باہر رکھنے اور ملک میں ملائیت مسلط کرنے کی منظم کوشش سے تعبیر کیا۔
اس موقع پر ایک بیان میں چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم سے ٹی وی پر آکر لوگوں کو نماز جنازہ کی ادائیگی کا طریقہ کار بتانے کا مطالبہ بھی کیا گیا جبکہ ایک سابق وزیر سے منسوب یہ بیان بھی سامنے آیا کہ ”پاکستان میں صادق اور امین کا وجود صرف ناموں تک محدود ہے“۔

کاغذات نامزدگی کے منظور یا مسترد ہونے کے عمل کے دوران ایک چیز جو ہر پاکستانی کی سمجھ سے بالاتر ہے وہ پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی2 حلقوں سے مسترد اور ایک حلقے سے منظور ہونے کا ہے۔
اگر آئین توڑنے پر2 حلقوں سے پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوتے ہیں تو کیا اس کا اطلاق چترال کے حلقے پر نہیں ہوتا؟ آج ملک کے سیاستدان جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف جیسے ڈکٹیٹرز کی آئین میں کی گئی ترامیم کی سزا بھگت رہے ہیں جن کی منظوری میں ایک وقت میں وہ خود بھی پیش پیش تھے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان اور الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر آرٹیکل 62 اور 63 کی مبہم شقوں کی تشریح کریں۔
ان آرٹیکلز کا اطلاق کسی شخص کی مالی بدعنوانی، کرپشن، نادہندگی اور ناجائز دولت سے بنائے گئے اثاثوں تک ہی محدود رہنا چاہئے اور اس کی آڑ میں کسی امیدوار کی ذاتی زندگی اور کردار کشی کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے نجی زندگی کے معاملات میں پردہ پوشی کا حکم دیا ہے۔
اگر اس پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو ایک دوسرے کے نجی معاملات میں گھسنے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا جس سے انتخابی عمل شدید متاثر ہوگا۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں