صفحات

منگل، 9 اپریل، 2013

فیملی ویزا سسٹم Immigration uk

پچھلے کچھ عرصہ سے برطانیہ میں امیگریشن قوانین خاص طورپر فیملی ویزا سسٹم کو جن تبدیلیوں سے گزارا گیا ہے یا پھر پہلے سے موجود بعض قوائد وضوابط پر عمل درآمد کے طریقہ کار میں مزید سختیاں کی گئی ہیں اس پر حکومت برطانیہ کا جو نقطہ نظر سامنے آیا تھا وہ یہ تھا کہ دیگر امیگریشن سسٹم کی طرح فیملی ویزا کو کئی سالوں سے ریگولیٹ نہیں کیا گیا تھا۔
شیم میرجز کے کیسیز بھی ہوئے ہیں، لوگوں کو انگریزی زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود یہاں آنے کی اجازت دی گئی، اور کوئی رولز نہیں اپنائے گئے کہ جو لوگ برطانیہ آئیں وہ یہاں ویلفےئر سٹیٹ پربوجھ نہ بنیں۔
جبکہ حکومت اب یہ تمام سسٹم تبدیلی کررہی ہے اور ان کا منصوبہ یہ ہے کہ جو ہزاروں لوگ برطانیہ اپنے غیر ملکی/فارن سپاوز یعنی بیوی یا خاوند پارٹنر اوردیگر ڈیپنڈنس(dependants)کو بلانے کے خواہشمند ہوں وہ مالی اعتبار سے اس قابل بھی ہوں کہ وہ ٹیکس ادا کرنے والے دیگر برطانوی شہریوں پر بوجھ تصور نہ کئے جائیں۔
ابھی تناظر میں سپاوز ویزا کے عمل میں بعض تبدیلیوں کو ایک پچھلے کالم میں بیان کیا تھا اس حوالے سے امیگریشن کیسوں سے متعلق بعض وکلاء کے علاوہ کئی سنجیدہ مکتب فکر کے لوگوں کا وسیع ردعمل سامنے آرہا ہے جن کے مطابق حکومت کو غالباً یہ اندازہ نہیں ہے کہ اس سسٹم کو ”ٹھیک طرح ریگولیٹ“ کرنے کے عمل سے لوگوں کی فیملی لائف پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
اور نہ صرف ایشیائی بلکہ ہر طرح کے لوگ متاثرین میں شامل ہیں، برطانیہ کے ایک ممتاز براڈشیٹ انگریزی روزنامے میں ایک شخص اپنے ساتھ پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات رپورٹ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس کے آسٹریلین نژاد پارٹنر کے لئے یو کے میں رہنے کے لئے امیگریشن کا پرا سس ان کی زندگیوں کا انتہائی ناخوشگوار تجربہ تھا۔
حکومتی دفتروں کے باہر متعدد وزٹس (Visits)کے علاوہ متعدد بار تاریخیں التواء میں ڈالنے ، ہر دورہ کے موقع پر انتظار کے طویل لمحات پھر چار سال کے طویل عرصہ میں اپیلوں اور سماعت (hearing)کے تلخ تجربات سے بالآخر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اورفرسٹیشن سے دوچار ہوکر آخر کار تمام پیپرورک برٹش ایمبیسی کینبرا لے گئے جس نے صرف دو ہفتے میں درخواست کو اپرو(approve)کردیا۔
ایک اور شخص نے لکھا ہے کہ وہ ایک برٹش ہے اوروہ یو ایس میں چھ سال تک ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے لئے کام کرتارہا۔
اور ایک امریکن سے شادی کی اور اس سے دوسال کا بیٹا ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ ملازمت سے ایک سال کی رخصت لے کر واپس اپنے گھر برطانیہ رہے گا۔
اور یہاں پر وہ ماسٹر کرنا چاہتا تھا اور وہ برطانیہ آگیا اور یہاں ماسٹر کا آدھا کورس بھی مکمل کرچکا ہے مگر اس کی بیوی اور بیٹا یو ایس میں ویزا دفتروں میں انتظارگاہوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور اس عرصہ میں بچے کی سالگرہ بھی گزرگئی اس کاکہنا تھا کہ یوکے بارڈر ایجنسی پراسس کو بہتر بنائے اور صحیح حقداروں کی حوصلہ شکنی نہ کرے۔
ایک خاتون نے لکھا ہے کہ وہ ایک امریکن ایف ایل آر ایم درخواست دہندہ ہے وہ بھی ایک سٹریٹ فارورڈ(Straight Forward)کیس اپلائی کئے ہوئے ہے مگر پانچ چھ ماہ سے فیصلہ سننے کی منتظر ہے اس کا کہنا ہے کہ پہلے جن کیسوں کا فیصلہ اوسطاً 14ہفتوں میں سنادیاجاتا تھا
اب نہ جانے کیوں ان پر دس مہینے بھی لگادیے جاتے ہیں۔
وہ صرف اپنے خاوند کے ساتھ یو کے رہنا چاہتی ہے۔ اس نے توجہ دلائی ہے کہ آپ کا پاسپورٹ جو کہ آپ کی درخواست کے ساتھ جاتا ہے اور کوئی پاسپورٹ نہیں کوئی لیگل شناختی دستاویز، آئی ڈی نہیں کہ اگر کسی ہنگامی صورت /ضرورت میں سفر کرنا پڑجائے۔
فیملی میں کوئی فوتگی وغیرہ ہوجائے تو آخر ٹریول کس طرح کرے۔ اس نے مزید لکھا ہے کہ جو فون نمبر مہیا کیا گیا ہے ۔
6مہینے انتظار کے بعداس پر رنگ کریں تو صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ ابھی کوئی بھی شخص آپ کے کیس کو نہیں دیکھ سکا اور آپ مسلسل انتظار کریں۔
ایک اور شخص کا کہنا ہے کہ وہ برٹش ہے جبکہ اس کا پارٹنر جنوبی ایشیا سے متعلق ہے۔
وہ شادی شدہ ہے اور انہوں نے ویزا ایکسٹینشن جیسے ایف ایل آر ایم FLR(m)کے طورپر جانا جاتا ہے۔
اپریل 2012 میں اپلائی کیا۔اور یہ ایک سیدھا سادا پراسیس ہونا چاہیے تھا کیونکہ اس کا پارٹنر پہلے سے ہی یہاں ہے اور وہ سیکنڈ ویزا اپلائی کئے ہوئے ہیں جس کی کاسٹ/ لاگت بھی 600پونڈ سے زیادہ ہے مگر یو کے بارڈر ایجنسی شفیلڈ نے ابھی تک پر اسیس نہیں کیا۔
اور کوئی اشارہ بھی نہیں دیتے کہ کب تک پراسیس کریں گے جس کے باعث وہ اور اس کا پارٹنر جنوبی ایشیا کے اس ملک میں ٹریول نہیں کرسکتے۔
اوپر بالا چند مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یو کے بارڈر ایجنسی کیسوں سے نمٹنے میں بہت سست روی کا مظاہرہ کررہی ہے۔
اور نئی نئی تبدیلیوں سے معاملات پیچیدہ صورت اختیار کررہے ہیں۔
حالانکہ جب ہوم سیکرٹری تھریسیامے نے تبدیلیوں کا عندیہ ظاہر کیا تھا امیگریشن ویلفیئر کمپینرز نے خبردار کیاتھا کہ ریڈیکل تبدیلیوں کے اثرات دو تہائی برطانویوں پرپڑیں گے ۔
آمدن کا پہلے جو معیار رکھنے کا اظہار کیا گیا تھا یعنی (25,700)اس سے تو 53ہزار جو موجودہ فیملی ویزا ہرسال جاری ہوتا ہے اس میں 46سے 60فیصد تک کمی آجانے کے خدشات بیان کئے گئے تھے جس پر یہ شرح 18600 رکھی گئی۔
امیگریشن ویلفےئر کمپینر نے پروبیشن عرصہ میں اضافے سے پڑنے والے اثرات سے بھی حکومت کو آگاہ کرنے کی کوششیں کی تھیں۔
یعنی برطانوی شہریوں کے غیر ملکی سپاؤزیزاور پارٹنرز کے لیے ایک اٹیچمنٹ ٹیسٹ متعارف کیا گیا ہے۔
جس کے ذریعے جوڑے کو یہ دکھانا ہے کہ ان کی مشترکہ اٹیچمنٹ کسی بھی اور ملک کی نسبت برطانیہ کے ساتھ زیادہ ہے۔
اور غیر معینہ مدت کی اجازت کا عرصہ دو سے پانچ سال کردیا گیا ہے۔
جبکہ اس مدت میں اضافے سے ان خدشات کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ اس سے بہت سی خواتین متشددانہ شادیوں کے ٹریپ میں پھنس کر رہ جائیں گی۔
اور خاموشی سے گھریلو تشددبرداشت کریں گی کیونکہ انہیں یہ خوف لاحق رہے گا کہ شکایت کی صورت میں انہیں ڈی پورٹ نہ کردیاجائے ۔
ہوم سیکرٹری نے مئی میں جب ان تجاویز کو شائع کیا تھا تو کہاتھا کہ برطانوی شہری یا جو افراد یہاں رہ رہے ہیں ان کا حق ہے کہ وہ جہاں سے چاہیں شادی کریں اور یا ایک سول پارٹنرشپ میں داخل ہوں مگر وہ اپنی فیملی یو کے میں سٹیبلش کرنا چاہتے ہوں تو پھر ان کے سپاؤز یا پارٹنر کی یو کے کے ساتھ جنیوئن اٹیچمنٹ ہونی چاہیے۔
انہیں انگریزی بولنا آنی چاہیے ۔ اور ہماری سوسائٹی میں اینٹی گریٹ (Integrate)ہونے کے قابل ہونا چاہیے۔
اور انہیں ٹیکس پیئرز پر بوجھ بھی نہیں بنناچاہیے اور اگر ایک شخص اپنے فارن سپاوز یا پارٹنر کی برطانیہ کے اندر سپورٹ نہیں کرسکتا تو پھر اسے ٹیکس ادا کرنے والے افراد سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ اس کی جگہ یہ مدد دیں گے حکومت اگلے الیکشن تک اس نئے سسٹم کے تحت 250,000مائیگرینٹس کی تعداد کو کم کرکے دس ہزار تک لانا چاہتی ہے۔
جبکہ جائنٹ کونسل فاردی ویلفےئر آف امیگرنٹس کا کہنا تھا کہ اس پر اسیس یرمزید عام حالات زندگی اور واقعات مثلاً پرگنینسی، کام پر حادثہ ہوجانا ، معذوری، کم آمدنی اور فارن ممالک کے نیشنلٹی لاز بھی اثرات ڈالیں گے۔
اس حوالے سے بین الاقوامی حقوق انسانی تنظیموں کویہ سوالات اٹھانے ہوں گے کہ ایک شخص جو برطانیہ رہتا ہے اور وہ کسی دوسرے ملک میں جاکر شادی کے بندھن میں سول پارٹنرشپ میں داخل ہوجاتا ہے اور پہلے تو اس کے روزگار کی شرح ہوم آفس کے مطلوبہ معیار پر پوری اترتی تھی مگر بعد میں جیسا کہ جائنٹ کونسل فاردی ویلفےئر آف امیگرنٹس نے نشاندہی کی ہے کہ حادثہ کے باعث ، یا کسی بھی اور وجہ سے ایک شخص کامالی پس منظر تبدیل ہوجائے تو کیایہ عمل غیر انسانی نہیں ہوگا کہ وہ اپنے پارٹنر کو یہاں نہ بلاسکے ، سپاؤزویزا میں تبدیلیوں کے قوانین کے حوالے سے ایک سولیسٹر کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ نئے سخت کرائی ٹیریا سے بہت پریشان ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ خاص طورپر جنیوئن رلیشن شپ (Genuine relation ship)کی شرط کافی سخت ہے کہ یہ ثابت کرنا کہ آپ کی شادی واقع جنیوئن ہوئی ہے اتنا آسان نہیں۔
ان کامشورہ تھا کہ اپنے پارٹنر کو فون کالیں کرنے کے بلز خط وکتابت ، ای میل یا فیس بک وغیرہ پر روابط کا ریکارڈ رکھا جائے۔
جبکہ سولیسٹر اور کشمیری پاکستانی کمیونٹی کی ایک متحرک شخصیت ملک صادق سبحانی کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے نئے امیگریشن قوانین سے پاکستان آزاد کشمیر سے میاں یا بیوی کے برطانیہ آنے کے عمل کودشوار بنادیا گیا ہے ۔
دوسرا کئی واقعات میں اس طرح کی شادیوں کی ناکامی کے باعث خودیہاں برطانیہ کے پیدائشی افراد اور آزادکشمیر پاکستان سے شادیاں کرنے کے بجائے برطانیہ ہی میں شادیاں کرنے کوترجیح دیتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات جن میں طلاق یاعلیحدگی ہوئی برٹش بورن لڑکے یالڑکی کی آزادکشمیریاپاکستان سے آئے ہوئے سپاوٴس کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہیں ہوسکی۔
ائنڈسیٹ مختلف ہونے کے باعث شادیاں ناکام رہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں